29 اکتوبر 2012 - 20:30

ایک لبنانی اسٹراٹجسٹ نے کہا: سعودی عرب ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے قتل میں ملوث ہے گوکہ دہشت گردی کی یہ کاروائیاں بےسود ہیں کیونکہ ایران کے پاس ہزاروں ایٹمی سائنسدان ہیں۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے تزویری مسائل کے ماہر "حکم امہز" نے فارس نیوز ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی اخبار نویس "بیری لانڈو" کی طرف سے ایران کے ایٹمی سائنسدان کے قتل میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے انکشاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انکشافات عملی طور پر ثابت ہوئے ہيں اور ان کے انکشافات صحیح ہیں۔ کیونکہ اگر ہم عراق اور شام میں آل سعود کے کرتوتوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ جس کسی کو بھی اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اس کو بڑی آسانی سے قتل کردیتے ہیں۔ امہز نے کہا: اس میں شک نہیں ہے کہ متعدد اسلامی اور عرب ممالک میں تمامتر تشدد آمیز کاروائیاں آل سعود کی مالی امداد سے انجام پارہی ہیں؛ سعودی عرب سمیت خلیج فارس کی تمام عرب ریاستوں نے ایران پر صدام کی مسلط کردہ جنگ میں صدام کی مدد و حمایت کی اور یہی ممالک عراق، شام اور دوسرے اسلامی ممالک میں عوام کا قتل عام کرنے والے وہابی ـ سلفی تکفیری دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا: سعودی عرب کے امریکہ اور یہودی ریاست کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں اور ان کے مفادات ایک دوسرے میں خلط ملط ہوگئے ہیں وہ علاقے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ سے ڈرتے ہیں کہ ایران کی طاقت ان کے اثر و رسوخ کو ختم کرے گا کیونکہ ایران کی طاقت عوامی حمایت اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے بدولت مسلسل آگے کی جانب بڑھ رہی ہے؛ اور ادھر سعودیوں کا حلیف امریکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کروانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے اور سعودی عرب، یہودی ریاست اور امریکہ اپنے اپنے اقدامات کے ذریعے علاقے میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ امریکہ ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے سے شدید خوف زدہ ہے چنانچہ اس نے ایران کے سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے اور وہ ایران کے ایٹمی پروزگرام کے خاتمے کے لئے سفارتی اقدامات اور پابندیوں کا سہارا لئے ہوئے ہے اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ جنگ ان کے فائدے میں ہے اور وہ جنگ کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں تو ایک لمحہ رکے بغیر ایران پر حملہ کرتے لیکن ایران کی ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور فوجی طاقت نیز ایران کی غیرمتوقعہ جوابی کاروائی ان کی طرف سے جنگ شروع نہ کرنے کا سب سے بنیادی سبب ہے اور ایران پر حملے کرنے کا کوئی امکان نہ ہونے کے بموجب انھوں ایران کےسائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے یہودی ریاست، سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو استعمال کیا جارہا ہے؛ اور میں اس بات کو بعید از قیاس نہيں سمجھتا کہ علاقے کی بعض دوسری حکومتیں بھی سعودی حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی ان کاروائیوں کے مالی اخراجات برداشت کررہے ہوں گے کیونکہ وہابیت اور سعودی حکومت کے حلقہ اثر میں قرار پانے والے بعض عرب حکمران بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ امریکہ اور یہودی ریاست اسلامی ممالک سمیت دنیا بھر کے خودمختار ممالک کو ایٹمی توانائی حاصل نہيں کرنے دیتے اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے لئے امریکہ اور یہودی ریاست کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والی ریاستیں بھی ان ہی ممالک میں شامل ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تیل اور گیس کے ذخائر مستقبل قریب میں ختم ہونے والے ہیں اور یہ ریاستیں ان ممالک کے دست نگر ہونگے جن کے پاس توانائی کے متبادل ذرائع موجود ہونگے؛ واضح رہے کہ مذکورہ بالا استعماری روئے کو مدنظر رکھ کر، کہا جاسکتا ہے کہ ایران دشمنی کے حوالے سے ان ریاستوں کی امریکہ نوازی یک طرفہ دوستی کے زمرے میں آتی ہے اور وہ امریکہ و یہودی ریاست کی خاطر سیاسی اور سلامتی کے حوالے سے بھی اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہی ہیں اور وہ وقت ان کے لئے بہت کڑا ہوگا جب توانائی کے ذخائر ختم کے بعد امریکہ ان سے اپنا منہ موڑے گا! اور ایران بدستور ایک طاقتور ملک کے عنوان سے قائم و دائم ہوگا۔ بے شک دوست یا دشمن کو تبدیل کرنا آسان ہے لیکن پڑوسیوں کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: ایران نے حفظ ما تقدم کے قاعدے کے تحت ضروری اقدامات کرلئے ہیں اور جب تیل اور گیس کے ذخائر ختم ہونگے تو دنیا کو متبادل توانائی سے استفادہ کرنا پڑے گا اور متبادل توانائی ایٹمی توانائی ہے اور چند سال بعد جس کے بعد یہ توانائی ہوگی دوسرے ممالک کی باگ ڈور بھی ان ہی کے ہاتھ میں ہوگی چنانچہ وہ ابھی سے ایران کی عظمت و طاقت کا راستہ بند کرنا چاہتے ہیں ؛ عرب ریاستیں چاہتی ہیں کہ ایران ان ریاستوں کی مانند رہے اور بالکل ترقی نہ کرے تا کہ بعد میں ان کی مدد کرکے ان پر مسلط نہ ہونے پائے۔ انھوں نے کہا: اگر مذکورہ معلومات کو ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کرنے والے موساد سے وابستہ نیٹ ورک کے ـ ایرانی ٹی وی سے نشر ہونے والے ـ اعترافات کے ساتھ رکھ لیں اور ان کا جائزہ لیں تو حیرت انگیز طور پر یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ خلیج فارس کی ریاستوں اور مغربی و صہیونی جاسوس ایجنسیوں کے درمیان مشترکہ مفادات کی بنیاد پر قریبی تعاون موجود ہے، اور وہ سب مل کے ایک ہی مفاد کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہیں اور وہ مشترکہ مفاد ایران کے ایٹمی پروگرام کا خاتمہ ہے۔انھوں نے کہا: ایران کے مغربی و صہیونی دشمن ایران کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں جس کے بعد انھوں نے ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے خاتمے کا فیصلہ کیا لیکن اس سلسلے میں بھی ناکامی ان کا مقدر ہے کیونکہ ایران میں ہزاروں ایٹیم سائنسدان موجود ہیں جن کو ختم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور اس سلسلے میں عرب ریاستوں اور ان کے مغربی اور صہیونی آقاؤں کی سازش ناکام ہوچکی ہے۔انھوں نے کہا: دوسری جانب سے جو لوگ آج ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے قتل میں ملوث ہیں وہ کل ان ممالک کے سائنسدانوں کو قتل کریں گے ـ بشرطیکہ وہ کبھی متبادل توانائی کی خاطر پرامن ایٹمی تنصیبات لگانا چاہیں!؛ جس طرح کہ آج اردن کی جکومت پرامن ایٹمی تنصبات لگانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس ملک نے اعلان کیا ہے کہ (اردن کی دوست اسرائیلی) یہودی ریاست اس ملک میں ایٹمی تنصیبات کی تنصیب ميں رکاوٹیں ڈال رہی ہے!انھوں نے کہا: اگر کسی دن سعودیوں یا خلیج فارس کی دوسری ریاستوں نے ایٹمی توانائی حاصل کرنا چاہیں تو امریکہ اور یہودی ریاست ان سے وفاداری کا ثبوت دینے کے بجائے انہیں نہ صرف تنہا چھوڑیں گے بلکہ ان کے راستے میں روڑے اٹکائیں گے اور اگر دھونس دھمکی اور دباؤ مؤثر واقع نہ ہو تو وہ ان ملکوں کے سائنسدانوں کو بھی قتل کروائیں گے۔ امہز نے بلاد الحرمین کے دوجزیروں "تیران اور صنافیر" پر اسرائیلی قبضے اور اس قبضے پر آل سعود کی مطلق خاموشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کو برادر پڑوسی ممالک قرار دیتا ہے لیکن یہ ریاستیں ایران کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور صہیونی ریاست اور وہابی حکومت کے بارے میں مجھے کہنے دیں کہ یہ جڑواں بہنیں ہیں اسی بنا پر جب ہم دو سعودی جزیروں پر اسرائیلی قبضے کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہيں تو دیکھتے ہیں کہ آل سعود نے آج تک ان دو جزائر پر صہیونی قبضے کی خبر کو ذرائع ابلاغ سے دور رکھا ہے اور بہت سے اسلامی ممالک حتی کہ عرب ممالک کو اس سلسلے میں کچھ بھی معلوم نہيں ہے۔ انھوں نے مزید کہا: مشترکہ مفادات کی بنا پر سعودی عرب اور دوسرے ممالک اس مسئلے کے بارے میں خاموش ہیں۔انھوں نے کہا: اب جو مقبوضہ جزائر کا مسئلہ سامنے آیا ہے تو ہمیں فلسطین کے موضوع پر عرب موقف کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ فلسطین عالم اسلام کی مقدس سرزمین ہے اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں نے اس موضوع پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ وہ صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینی بچوں اور خواتین کو قتل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور خود جاکر یہودی ریاست سے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ 2006 میں لبنان اور 2009 میں لبنان اور غزہ پر صہیونی حملوں کے دوران صہیونی ریاست کی پشت پر کھڑے ہوگئے اور اسلامی مزاحمت تحریک کے خلاف موقف اپنایا۔ وہ مزاحمت تحریک کی مدد کے بجائے اپنی بندرگاہوں کے راستے اسمارٹ میزائلوں کے کھیپ وصول کرکے صہیونی ریاست کی خدمت میں پیش کرتے رہے تا کہ صہیونی طیارے لبنان اور غزہ کے رہائشی علاقوں پر آسانی سے بمباری کرسکیں!واضح رہے کہ بلاد الحرمین کے دوجزیروں پر 1967 سے اب تک یہودی ریاست کا قبضہ ہے لیکن سعودی حکمران نہ صرف ان جزیروں کو غاصب اسرائیلی ریاست سے لوٹانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے بلکہ ان کے بارے میں کسی سے کچھ سن کر بھی سیخ پا ہوجاتے ہیں؛ تاہم سیدحسن نصر اللہ نے مقبوضہ فلسطین میں اپنا ڈرون بھجوانے اور آل صہیونی کو ایک بار پھر عالمی سطح پر رسوا کرنے کی داستان سنانے کے ضمن میں آل سعود سے کہا کہ وہ بحرین میں مداخلت کے بجائے اپنے جزیرے صہیونیوں سے آزاد کرنے کے لئے کیوں کوئی اقدام نہيں کرتے۔انھوں نے کہا: وہابیت اور صہیونیت دو جڑواں بہنیں ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ آل سعود کے حکمران حتی لمحہ بھر اپنے مقبوضہ جزائر کو واپس لینے کے بارے میں سوچنا جائز نہيں سمجھتے ہونگے۔انھوں نے آخر میں کہا: اس وقت  خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے تمامتر توجہ ایران کا مقابلہ کرنے پر مرکوز ہیں کیونکہ ایران واحد مستقل اور خودمختار اور صاحب ارادہ ملک ہے اور جابر قوتوں کی خواہشات کے سامنے سرتسلیم نہیں کرتا۔ ان کی تشویش کا مرکزہ یہ ہے کہ "ایران کا جوہری پروگرام کس طرح روکیں، ایران کو ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اس کی اپنی ہی حصولیابیوں سے محروم کیا جاسکتا ہے حالانکہ وہ ایک سوئی بنانے پر قدرت نہیں رکھتے اور وہ اپنی زندگی کے وسائل امریکی اور یورپی ممال سے لے رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

/110